پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا

غزل| ساقیؔ فاروقی انتخاب| بزم سخن

پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا
یہ وہی جسم کا آہن ہے کہ مٹی نکلا
میرے ہمراہ وہی تہمتِ آزادی ہے
میرا ہر عہد وہی عہدِ اسیری نکلا
ایک چہرہ تھا کہ اب یاد نہیں آتا ہے
ایک لمحہ تھا وہی جان کا بیری نکلا
ایک مات ایسی ہے جو ساتھ چلی آتی ہے
ورنہ ہر چال سے جیتے ہوئے بازی نکلا
موج کی طرح بہا درد کے دریاوؤں میں
اس طرح زندہ بچا کون مگر جی نکلا
میں عجب دیکھنے والا ہوں کہ اندھا کہلاؤں
وہ عجب خاک کا پتلا تھا کہ نوری نکلا
جان پیاری تھی مگر جان سے بیزاری تھی
جان کا کام فقط جان فروشی نکلا
خاک میں اس کی جدائی میں پریشان پھروں
جب کہ یہ ملنا بچھڑنا مری مرضی نکلا
صرف رونا ہے کہ جینا پڑا ہلکا بن کے
وہ تو احساس کی میزان پہ بھاری نکلا
اک نئے نام سے پھر اپنے ستارے الجھے
یہ نیا کھیل نئے خواب کا بانی نکلا
وہ مری روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے
جسم کی پیاس بجھانے پہ بھی راضی نکلا
میری بجھتی ہوئی آنکھوں سے کرن چنتا ہے
میری آنکھوں کا کھنڈر شہر معانی نکلا
میری عیار نگاہوں سے وفا مانگتا ہے
وہ بھی محتاج ملا وہ بھی سوالی نکلا
میں اسے ڈھونڈ رہا تھا کہ تلاش اپنی تھی
اک چمکتا ہوا جذبہ تھا کہ جعلی نکلا
میں نے چاہا تھا کہ اشکوں کا تماشا دیکھوں
اور آنکھوں کا خزانہ تھا کہ خالی نکلا
اک نئی دھوپ میں پھر اپنا سفر جاری ہے
وہ گھنا سایہ فقط طفلِ تسلی نکلا
میں بہت تیز چلا اپنی تباہی کی طرف
اس کے چھٹنے کا سبب نرم خرامی نکلا
روح کا دشت وہی جسم کا ویرانہ ہے
ہر نیا راز پرانا لگا باسی نکلا
صرف حشمت کی طلب جاہ کی خواہش پائی
دل کو بے داغ سمجھتا تھا جزامی نکلا
اک بلا آتی ہے اور لوگ چلے جاتے ہیں
اک صدا کہتی ہے ہر آدمی فانی نکلا
میں وہ مردہ ہوں کہ آنکھیں مری زندوں جیسی
بین کرتا ہوں کہ میں اپنا ہی ثانی نکلا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام