وہ اہلِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے

غزل| جونؔ ایلیا انتخاب| بزم سخن

وہ اہلِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے
بَلا کی حالتِ شوریدگی میں آئے تھے
کہاں گئے؟ کبھی اُن کی خبر تو لے ظالم
وہ بے خبر جو تری زندگی میں آئے تھے
گلی میں اپنی ، گلہ کر ہمارے آنے کا!
کہ ہم خوشی میں نہیں سرخوشی میں آئے تھے
کہاں چلے گئے اے فصلِ رنگ و بُو! وہ لوگ
جو زرد زرد تھے اور سبزگی میں آئے تھے
نہیں ہے جن کے سبب اپنی جانبری ممکن!
وہ زخم ہم کو گزشتہ صدی میں آئے تھے
تمہیں ہماری کمی کا خیال کیوں آتا
ہزار حیف! ہم اپنی کمی میں آئے تھے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام