مجھ سا دیوانہ بھی ہے دانشوروں کے درمیاں

غزل| محمد حسین فطرتؔ انتخاب| بزم سخن

مجھ سا دیوانہ بھی ہے دانشوروں کے درمیاں
ہے وجودِ خار بھی لازم گلوں کے درمیاں
کیسے کیسے قصر و ایواں شہر کے دامن میں ہیں
بے مکاں بھی سیکڑوں ہیں ان گھروں کے درمیاں
سن لو شاہیں کی ستائش تم میرے الفاظ میں
اک وجودِ شعلہ ساماں ہے پروں کے درمیاں
عشق میں گردن فرازی اپنی ہے ضرب المثل
سر بلند اپنا رہا لاکھوں سروں کے درمیاں
عیش کوشی کا زمانہ اب کہاں باقی رہا
ذکر تیشے کا چلا شیشہ گروں کے درمیاں
مخملوں کے ڈھیر میں چمکا ہے اپنا بوریا
میرا بستر ہے جدا سب بستروں کے درمیاں
گوہرِ نایاب کو ڈھونڈو صدف کو توڑ کر
کیا ملے گا تم کو موتی پتھروں کے درمیاں
کس کو تخریبِ پسِ پردہ کا اب ادراک ہے
سرد آتش تیز ہے لاکھوں گھروں کے درمیاں
شیر دل بندوں کو یہ کہتے ہوئے میں نے سنا
اک حیاتِ نو ہے رقصاں خنجروں کے درمیاں
دوستوں میں مجھ کو شانِ زندگی ملتی نہیں
گویا میں بیٹھا ہوا ہوں مقبروں کے درمیاں
قبر سے آواز آتی ہے سنے ہر ذی حیات
اپنا بستر بھی بچھا ان بستروں کے درمیاں
منتشر ہے آج کل شیرازۂ علم و یقیں
مدرسوں اور خانقاہوں اور گھروں کے درمیاں

ہے غنیمت دوستو دنیا میں فطرتؔ کا وجود
ایک دیوانہ ہے یہ دانشوروں کے درمیاں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام