جھیل کنارے ساتھ ہمارے پریوں نے شب باشی کی

غزل| سعودؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

جھیل کنارے ساتھ ہمارے پریوں نے شب باشی کی
چاندی جیسی رات سجی تھی رات بھی پورن ماشی کی
لمبے ہجر کے بعد ملیں تو اک چپ بولنے لگتی ہے
جانے کب تک سناٹے کی ہم نے سمع خراشی کی
یاد ہے اس دن جب ہم بیٹھے سائے میں عشقِ پیچاں کے
تیز ہوا نے سرخ گلابی پھولوں سے گل پاشی کی
دھوپ کی چمکیلی جاجم نے چوما تیرے قدموں کو
چمپا نے گل دان سجائے سبزے نے فرّاشی کی
ایک محل رہتا ہے مجھ میں چاہے میں اس میں نہ رہوں
جس کے دروازے صندل کے جس کی اینٹیں کاشی کی
پھر یہ اس کے اندر سے بے رنگی کیسے جھانکتی ہے
دل کے خول پہ میں نے کیا کیا ست رنگہ نقاشی کی
دل کو پھول بنا کر رکھنا اتنا سہل نہ تھا صاحب!
سالوں پتھر موم کیا ہے پہروں زخم تراشی کی
برسوں ایک پرندے کے پر مجھ کو کاٹنے پڑتے تھے
عمر سنہرے خوابوں والی اور حالت قلّاشی کی
برسوں عشق بگڑ جانے کا سوگ کیا اور پھر میں نے
اک دن اس کا جشن منایا جی بھر کر عیاشی کی

تم تو شاید اس بستی کے سونے پن سے واقف ہو
تم نے ایک زمانہ میرے سینے میں شب باشی کی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام