لطفِ نہاں سے جب جب وہ مسکرا دئے ہیں

غزل| وحشتؔ کلکتوی انتخاب| بزم سخن

لطفِ نہاں سے جب جب وہ مسکرا دئے ہیں
میں نے بھی زخم دل کے اُن کو دکھا دئے ہیں
کچھ حرفِ آرزو تھا کچھ یادِ عیشِ رفتہ
جتنے تھے نقش دل میں میں نے مٹا دئے ہیں
فرطِ غم والم سے جب دل ہوا ہے گریاں
اُس نے عنایتوں کے دریا بہا دئے ہیں
دیکھے ہیں تیرے تیور دھوکہ نہ کھائیں گے اب
اُٹھتے تھے ولولے کچھ ہم نے دبا دئے ہیں
اس دل نشیں ادا کا مطلب کبھی نہ سمجھے
جب ہم نے کچھ کہا ہے وہ مسکرا دئے ہیں
کچھ شوخ کر دیا ہے چھیڑوں سے ہم نے تم کو
کچھ حوصلے ہمارے تم نے بڑھا دئے ہیں
کیا تجھ کو کوئی دیکھے پردہ اُٹھانے والے
تُو نے تو بجلیوں کے پردے گرا دئے ہیں
کرتا ہوں وحشتؔ اُن سے عرضِ نیازِ پنہاں
اس کام کے طریقے دل نے بتا دئے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام