دل میں کچھ سوزِ تمنا کے نشاں ملتے ہیں

غزل| معین احسن جذبیؔ انتخاب| بزم سخن

دل میں کچھ سوزِ تمنا کے نشاں ملتے ہیں
اس اندھیرے میں اجالے کے سماں ملتے ہیں
آج بھی ریگِ بیاباں کے تپش زاروں میں
لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے نشاں ملتے ہیں
ہاں اسی منزلِ صد کیف و طرب کی جانب
قافلے آج بھی اشکوں کے رواں ملتے ہیں
اے مرے ہم سفرو! اس کو تو منزل نہ کہو
آندھیاں اٹھتی ہیں طوفان یہاں ملتے ہیں
ان کے ہر وعدۂ الطاف کی رنگینی میں
کتنے نا دیدہ ستم ہائے گراں ملتے ہیں
اس کی محفل میں وہ بہکے ہوئے سیمیں نغمیں
اب تو کچھ دن سے بہ اندازِ فغاں ملتے ہیں

یوں گوارا ہے یہ خوں بار افق کا منظر
اس کے پرتو میں ہمیں تازہ جہاں ملتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام