چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا

غزل| پروینؔ شاکر انتخاب| بزم سخن

چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہلِ کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامنِ یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو مرا واقفِ حال کر دیا

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام