آج کسی نے باتوں باتوں میں جب اُن کا نام لیا

غزل| غلام ربانی تاباؔں انتخاب| بزم سخن

آج کسی نے باتوں باتوں میں جب اُن کا نام لیا
دل نے جیسے ٹھوکر کھائی درد نے بڑھ کر تھام لیا
گھر سے دامن جھاڑ کے نکلے وحشت کا سامان نہ پوچھ
یعنی گردِ راہ سے ہم نے رختِ سفر کا کام لیا
دیواروں کے سائے سائے عمر بتائی دیوانے
مفت میں تن آسانئ غم کا اپنے سر اِلزام لیا
راہِ طلب میں چلتے چلتے تھک کے جب ہم چُور ہوئے
زلف کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھے پل دو پل آرام لیا

ہونٹ جلیں یا سینہ سلگے کوئی ترس کب کھاتا ہے
جام اُسی کا جس نے تاباںؔ جراَت سے کچھ کام لیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام