چمن کے پھول تو ہیں پھول کانٹوں کو سنوار آئی

غزل| نوحؔ ناروی انتخاب| بزم سخن

چمن کے پھول تو ہیں پھول کانٹوں کو سنوار آئی
عروسِ رنگ و بو ہو کر زمانے میں بہار آئی
کسی جانب سے کب کوئی صدائے خوش گوار آئی
ہماری بے کسی ایک ایک مونس پکار آئی
ہوائے فصلِ گل رندوں کو چل پھر کر پکار آئی
چمن نے ساز چھیڑا ناچتی گاتی بہار آئی
نکھر آئی نکھار آئی سنور آئی سنوار آئی
گلوں کی زندگی لے کر گلستاں میں بہار آئی
نگاہِ شوخ کی تقلید تھی مدِّ نظر دل کو
سمجھ میں بعد مدّت کے یہ وجہِ اضطرار آئی
چمن کے غنچہ و گل پر خزاں نے قہر ڈھایا تھا
حواس و ہوش کا تختہ الٹنے کو بہار آئی
مسلسل رنج و غم ہم نے محبت میں اٹھائے ہیں
دل اپنا بار بار آیا طبیعت بار بار آئی
اسیرانِ قفس کو واسطہ کیا ان جھمیلوں سے
چمن میں کب خزاں آئی چمن میں کب بہار آئی
خدا جانے کہ بت خانے میں کیا دیکھا خدائی نے
گئی تھی مطمئن لیکن وہاں سے بے قرار آئی
مشیت کو نہیں منظور دم بھر پارسا رکھنا
اِدھر کی میں نے توبہ اور اُدھر فوراً بہار آئی
بھرے پھولوں کے ساغر بادۂ شبنم سے گردوں نے
چمن میں سے میکدے کا میکدہ لے کر بہار آئی
زمیں والے مری فریاد کی امداد کیا کرتے
فرشتوں کو بھی جا کر آسماں تک یہ پکار آئی
یہ دستورِ محبت کیا ہے آئینِ وفا کیا ہے
بھلایا جس نے مجھ کو یاد اُس کی بار بار آئی
دمِ نظارۂ مے خانہ یہ معلوم ہوتا ہے
سمٹ کر بوتلوں سے ساری دنیا کی بہار آئی
کمالِ خاص دیکھا ہم نے یہ مشقِ تصور میں
خیال کوئے یار آیا ہوائے کوئے یار آئی
مجھے گلشن سے اے جوشِ جنوں صحرا کو اب لے چل
یہاں اِس کے سوا کیا ہے خزاں آئی بہار آئی
شرف کے ساتھ اتنی تھی کشش بھی چار تنکوں میں
طوافِ آشیاں کرنے کو بجلی بار بار آئی
ہمیشہ بادہ خواروں پر خدا کو مہرباں دیکھا
جہاں بیٹھے گھٹا اٹّھی جہاں پہنچے بہار آئی

خدایا جانے دلِ شوریدہ سر پر کیا گزر جائے
جنابِ نوحؔ پر طوفاں اٹھانے کو بہار آئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام