ہر نفس میں دل کی بیتابی بڑھاتے جائیے

غزل| ماہرؔ القادری انتخاب| بزم سخن

ہر نفس میں دل کی بیتابی بڑھاتے جائیے
دور رہ کر بھی مرے نزدیک آتے جائیے
اک ذرا تھم تھم کے پردے کو اُٹھاتے جائیے
دیکھنے والوں کی نظریں آزماتے جائیے
میرے اس ظلمت کدے کو جگمگاتے جائیے
ہو سکے تو میرے خاطر مسکراتے جائیے
پھر اُسی انداز میں نظریں ملاتے جائیے
دیکھنے والوں کی نظریں آزماتے جائیے
یا کوئی تسکین کی صورت بناتے جائیے
یا پھر اپنی یاد سے غافل بناتے جائیے
رفتہ رفتہ خود کو دیوانہ بناتے جائیے
حسن کی دلچسپیوں کے کام آتے جائیے
رہ گیا ہے آرزؤں کا لرزتا سا چراغ
جاتے جاتے آج اس کو بھی بجھاتے جائیے
عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریبِ دوست کھاتے جائیے
کفر و ایماں کے سوا بھی کچھ مناظر اور ہیں
اُن کے ہر انداز پر ایمان لاتے جائیے
آ ہی جائے گا کوئی قسمت کا مارا قیس بھی
ہر طرف دامِ رخِ لیلی بچھاتے جائیے
میں نے کچھ فطرت ہی پائی ہے عجب مشکل پسند
میری ہر مشکل کو مشکل تر بناتے جائیے
یاد ہے ماہرؔ ! مجھے اُن کا وہ کہنا یاد ہے
آج تو بس رات بھر غزلیں سناتے جائیے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام