اگر خورشیدِ صبحِ نو تجلی بار ہو جائے

غزل| محمد حسین فطرتؔ انتخاب| بزم سخن

اگر خورشیدِ صبحِ نو تجلی بار ہو جائے
کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہو جائے
اگر عزمِ سفر دل میں تیرے بیدار ہو جائے
تری راہوں کا ہر کانٹا گلِ گلزار ہو جائے
یہ اک روشن حقیقت ہے یہ اک زندہ صداقت ہے
نہ ہو مرنا تو پھر جینا یہاں دشوار ہو جائے
سرِ مے خانہ مجھ کو دیکھ کر ساقی یہ چلایا
قیامت ہے کہ تجھ سا پارسا مے خوار ہو جائے
نگاہِ عارفاں میں موت کی اتنی حقیقت ہے
کہ جیسے کوئی گہری نیند سے بیدار ہو جائے
نہیں ہے کارِ ذی شاں کارِ تسخیرِ جہاں گیری
مجاہد پہلے خود سے برسرِ پیکار ہو جائے
مرے دل نے حجابِ رازِ ہستی چاک کر ڈالا
یہی تھا اس کے شایاں محرمِ اسرار ہو جائے
نگاہِ مردِ مومن کی خصوصیت یہی تو ہے
کبھی یہ برگِ گل ہے تو کبھی تلوار ہو جائے

جنابِ شیخ میری یہ دعا ہے آپ کے حق میں
میسر آپ کو میرا دل بیدار ہو جائے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام