لوحِ مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا

غزل| ظہیرؔ کاشمیری انتخاب| بزم سخن

لوحِ مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
بدنام ہو کے عشق میں ہم سرخرو ہوئے
اچھا ہوا کہ نام گیا ننگ رہ گیا
ہوتی نہ ہم کو سایۂ دیوار کی تلاش
لیکن محیطِ زیست بہت تنگ رہ گیا
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے
جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا
کتنے ہی انقلاب شکن در شکن ملے
آج اپنی شکل دیکھ کے میں دنگ رہ گیا
کل کائنات فکر سے آزاد ہو گئی
انسان مثالِ دستِ تہِ سنگ رہ گیا
ہم اُن کی بزمِ ناز میں کیوں چپ ہوئے ظہیرؔ
جس طرح گھٹ کے ساز میں آہنگ رہ گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام