سعادت ہے بڑی راہِ خدا میں جاں اگر جائے

غزل| محمد حسین فطرتؔ انتخاب| بزم سخن

سعادت ہے بڑی راہِ خدا میں جاں اگر جائے
مرے قاتل سے کہہ دو عزم اپنا پورا کر جائے
شعاعِ مہرِ تاباں سے مفر ہرگز نہیں ممکن
ہر اک گوشے میں ہر کونے میں تنویرِ سحر جائے
کسی کی ناگہانی موت پر بے سود ہے ماتم
ضروری ہے سفر کے بعد راہی اپنے گھر جائے
عزیمت میرا شیوہ ہے تشدد تیری فطرت ہے
ستمگر ظلم کا آرا مرے سر سے گزر جائے
ازل سے یہ ہے فطرت کاکلِ لیلائے گیتی کی
کبھی تو یہ الجھ جائے کبھی بے حد سنور جائے
بہت نازاں تھا گلچیں باغ کی شیرازہ بندی پر
مگر فطرت کا یہ منشا تھا بوۓ گل بکھر جائے
کسی سے مانگنا سب سے بڑی ذلت ہے دنیا میں
اترنا ہو جسے قعرِ مذلّت میں اتر جائے
حقیقت کو پرکھنا ہو تو اس معیار پر پرکھو
وہی ہوتی ہے سچی بات جو دل میں اتر جائے

یہی بس مدعائے دانش حاضر ہے اے فطرتؔ
حیا ہو ختم دنیا سے تمیزِ خیر و شر جائے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام