تن تنہا مقابل ہو رہا ہوں میں ہزاروں سے

غزل| کیفؔ بھوپالی انتخاب| بزم سخن

تن تنہا مقابل ہو رہا ہوں میں ہزاروں سے
حسینوں سے رقیبوں سے غموں سے غم گساروں سے
انہیں میں چھین کر لایا ہوں کتنے دعوے داروں سے
شفق سے چاندنی راتوں سے پھولوں سے ستاروں سے
سنے کوئی تو اب بھی روشنی آواز دیتی ہے
پہاڑوں سے گپھاوؤں سے بیابانوں سے غاروں سے
ہمارے زخمِ دل داغِ جگر کچھ ملتے جلتے ہیں
گلوں سے گل رخوں سے مہ وِشوں سے ماہ پاروں سے
کبھی ہوتا نہیں محسوس وہ یوں قتل کرتے ہیں
نگاہوں سے کنکھیوں سے اداوؤں سے اشاروں سے
ہمیشہ ایک پیاسی روح کی آواز آتی ہے
کنوؤں سے پنگھٹوں سے ندّیوں سے آبشاروں سے
نہ آئے پر نہ آئے وہ انہیں کیا کیا خبر بھیجی
لفافوں سے خطوں سے دکھ بھرے پرچوں سے تاروں سے
زمانے میں کبھی بھی قسمتیں بدلا نہیں کرتیں
امیدوں سے بھروسوں سے دلاسوں سے سہاروں سے
وہ دن بھی ہائے کیا دن تھے جب اپنا بھی تعلق تھا
دسہرے سے دیوالی سے بسنتوں سے بہاروں سے
کبھی پتھر کے دل اے کیفؔ پگھلے ہیں نہ پگھلیں گے
مناجاتوں سے فریادوں سے چیخوں سے پکاروں سے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام