اک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھئے

غزل| خمارؔ بارہ بنکوی انتخاب| بزم سخن

اک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھئے
دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھئے
بھولے ہیں رفتہ رفتہ اُنہیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھئے
آغازِ عاشقی کا مزا آپ جانیئے
انجامِ عاشقی کا مزا ہم سے پوچھئے
وہ جان ہی گئے کہ ہمیں اُن سے پیار ہے
آنکھوں کی مخبری کا مزا ہم سے پوچھئے
جلتے دئیوں میں جلتے گھروں جیسی ضو کہاں
سرکار روشنی کا مزا ہم سے پوچھئے
ہنسنے کا شوق ہم کو بھی تھا آپ کی طرح
ہنسیئے مگر ہنسی کا مزا ہم سے پوچھئے
ہم توبہ کر کے مر گئے قبل اجل خمارؔ
توہینِ مئے کشی کا مزا ہم سے پوچھئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام